Wednesday
Thursday
اللہ کی معرفت
اللہ کی معرفت
قرآن کی آیت: "وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب و حاضر (سب) کا جاننے والا، وہ سراسر رحمت ہے ، اسکی شفقت ابدی ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ، وہ منزہ ہستی، سراسر سلامتی،امن دینے والا، نگہبان، غالب،بڑے زور والا،بڑائی کا مالک۔ پاک ہے اللہ ان سے جو یہ شریک بتاتے ہیں ۔وہی اللہ ہے نقشہ بنانے والا، وجود میں لانے والا،صورت دینے والا سب اچھے نام اسی کے ہیں۔ اسی کی تسبیح کرتی ہیں جو چیزیں آسمانوں ہیں اور جوزمین میں ہیں۔ اور زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے"۔(سورہ الحشر۵۹ ۔۲۲:۲۴)
پہلا حصہ: تعارف
اللہ کا وجود اس کائنات کی ایک کھلی حقیقت ہے۔ اس دنیا کے نباتات، جمادات ، حیوان، چرند، پرند اور انسان اپنے ظاہر و باطن سے اعلان کررہے ہیں کہ وہ آپ سے آپ وجود میں نہیں آئے بلکہ انہیں کسی نے پیداکیا ہے۔ چنانچہ ہر شے کا اپنے رب سے پہلا رشتہ مخلوق اور خالق کا ہے۔
جہاں تک انسان کا معاملہ ہے تو اس کا اپنے پروردگار سے تعارف دو بنیادوں پر ہے۔ ایک بنیاد تو داخلی ہے اور دوسری خارجی۔ داخلی طور پر ہر انسان کی فطرت میں اللہ نے اپنے وجود اور توحید کے تصور کو پنہاں کردیا ہے جس کا اشارہ عہد الست سے بھی ملتا ہے(سورہ الاعراف)۔ چنانچہ جب ایک انسان اپنے باطن میں جھانکتا ہے تو اپنے اندر ایک خالق اور مالک ہستی کو محسوس کرتا اور اسے تسلیم کرکے اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ دوسری جانب جب انسان خارجی ماحول میں نظر دوڑاتا ہےتو اسے کائنات کی رنگینی، ہم آہنگی،نظام ربوبیت اور نظم یہ ماننے پر مجبور کردیتا ہے کہ کوئی برتر و بالا ہستی موجود ہے جو اس کائنات کو تخلیق کرکے تدبیر کے ساتھ چلا رہی ہے۔
اپنے خالق کو انسان اس دن سے سمجھنے کی کوشش کررہا ہے جس دن سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ انسان کے علم کی محدود یت کی بنا پر مکمل طور پر اللہ کی ذات اور صفات کا احاطہ ممکن نہیں ہوسکا۔ نیز انسان کی تفہیم اور عقل کے ساتھ مفادات، تعصبات اور جذبات کی آفات کی وجہ سے اللہ کے بارے میں غلط تصورات بھی خلط ملط ہوتے چلےگئے ۔نتیجے کے طور پر انسان اپنے خالق کے درست تصور سے دور ہوتا چلا گیا۔ اسی دوری کی وجہ سے خدا کو دنیاوی بادشاہوں کی طرح سمجھ کر اس کے شریک مقرر کئے گئے تو کبھی تقدیر کےخالق خدا کو ہی اسباب و علل کا پابند بنادیا گیا۔ کبھی خدا کی صفت رحم میں افراط کرکے ہر گناہ کو جائز کرلیا گیاتو کبھی اسکی صفت قہاریت کو حاوی کرتے ہوئے مایوسی اختیار کرلی گئی۔ یہ افراط و تفریط اور غلط فہمی محض ان قوموں میں ہوتی جو وحی سے ناآشنا ہیں تو اتنی قابل تشویش نہ ہوتی ۔لیکن کم و بیش یہ ساری خامیاں وحی کے حامل مسلمانوں میں بھی پائی جاتی رہی ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ اللہ کی کتاب سے راہنمائی لینے کی بجائے فلسفے اور خواہش پرستی کی بھول بھلیوں میں کھو جانا ہے۔
زیر نظر مضمون کا بنیادی مقصد اللہ کی ذات اور صفات کا وہ تعارف پیش کرنا ہے جو قرآن میں بیان ہوا ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ وہ تعارف ہے جو اللہ نے خود کرایا ہے چنانچہ اس میں کسی بحث اور نزاع کی گنجائش ہی نہیں۔ اس مضمون میں زیادہ زور اللہ کی ذات کی بجائے اسکی صفات پر ہے کیونکہ ذات کے بارے میں قرآن نے بیان کردیا کہ ہم اسے قطعاََ سمجھ نہیں سکتے۔
اللہ کا ظاہر ی وجود
اللہ کے ظاہری وجود کے بارے میں جاننے کا انسان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ ہم کسی بھی چیز کی ماہیت جاننے کے لئے یا تو اس کا مشاہدہ کرتے ہیں یا پھر اس کو کسی دوسری چیز سے تشبیہ دے کر اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں(میزان صفحہ ۹۲) ۔اللہ تعالیٰ کے معاملے میں یہ دونوں ناممکن ہیں۔ انسان کی آنکھ اپنی محدودیت کی بنا پر اللہ کی تجلی کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتی(سورۂ انعام ۱۰۳:۶)۔ یہاں تک کہ جب اللہ کے اپنے چنے ہوئے اور برگزیدہ پیغمبر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے دیدار الٰہی کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نرمی سے سمجھادیا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے (سورۂ اعراف ۱۴۳:۷)۔ جہاں تک اللہ کو کسی شے سے تشبیہ دینے کا معاملہ ہے تو یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ اللہ کے مثل کوئی شے موجود ہی نہیں جس کی مثال دے کر اللہ کے وجود کو بیان کیا جاسکے ۔ (الشوریٰ ۱۱:۴۲) ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ اس کی ذات یا ظاہری وجود نہیں بلکہ اس کی صفات ہیں۔
معرفت الٰہی کا مفہوم
معرفت کے لغوی معنی شناخت، پہچان، آگہی اور واقفیت کے ہیں۔معرفت الٰہی کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کو جانا جائے، اسے پہچانا جائے، اس سے واقفیت حاصل کی جائے۔کسی بھی شخصیت کی پہچان یا تو اس کے ظاہر ی وجود کو دیکھ کر ہوتی ہے یا پھر اس سے متعلق کچھ خصوصیات کو پہچان کر۔ مثال کے طور پر ایک باپ اپنے بیٹے کو دیکھتا ہے تو شناخت کرلیتا ہے ۔ دوسری جانب ایک بیٹی جب کھانا کھاتی ہے تو ماں ذائقے سےپہچان لیتی ہے کہ یہ کونسی بیٹی نے پکایا ہے۔ باپ کی شناخت ظاہری وجود کو دیکھ کر اور ماں کی معرفت بیٹی کی صفت کو دیکھ کر ہوئی ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ اللہ کی معرفت اسکے ظاہری وجود کے ذریعے کم از کم اس دنیا میں تو ممکن نہیں۔ چنانچہ اسے کسی حد تک جاننے اور پہچاننے کا واحد ذریعہ اسکی وہ چند صفات ہیں جو انسان کے سمجھ میں آسکتی ہیں۔
لیکن صفات کی اس معرفت پر کچھ اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور ان کا تجزیہ ضروری ہے۔
معرفت کیوں ضروری ہے؟
پہلا سوال یہ ہے کہ آخر معرفت یا اللہ کو پہچاننا کیوں ضروری ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے یہ بات جان لینی چاہِیے کہ کسی بھی شخصیت سے تعلق کی ابتدا اسے پہچاننے اور جاننے ہی سے ہوتی ہے۔ مثا ل کے طور پر میں سقراط کو پسند کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس نے ہمیشہ صداقت اور حق کی تعلیم دی اور اس صداقت کی خاطر زہر کا پیالہ تک پی لیا لیکن اپنے اصولوں پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔سقراط کے بارے میں اس معلومات کی بنا پر میرا اس سے ایک قلبی تعلق ہے۔ لیکن وہ شخص جس نے سقراط کا صرف نام سن رکھا ہے اس کا نہ تو اس سے کوئی رشتہ ہے اور نہ ہی کوئی جذباتی وابستگی۔ اسی سے ملتا جلتا معاملہ اللہ کی معرفت کا ہے۔ اس دنیا میں ہر شخص اللہ کو کسی نہ کسی نام سے جانتا ہے لیکن اسے علم نہیں کہ خدا کی صفا ت کیا ہیں ؟ چنانچہ اسکی یہ لاعلمی یا کم علمی اپنے خالق سے تعلق کی کمزوری اور بالآخر معدومیت کی سبب بن جاتی ہے۔ سقراط کو نہ جاننے کا تو کوئی نقصان نہیں لیکن اپنے خالق کو نظر انداز کردینا منطقی طور پر کئی مصیبتوں کا پیش خیمہ ہے۔
کیا دیکھے بنا معرفت ممکن ہے؟
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ کسی کو دیکھے بنا اسکی معرفت کس حاصل کی جاسکتی ہے؟اس کی تفہیم کے لئے آپ ایک بچے کا تصور کریں جو پیدائش کے فوراََ بعد اپنی ماں سے الگ کرکے کسی اور ملک بھیج دیا گیا ہو۔ لیکن وہاں اس کے سرپرست اسے مسلسل اسکی ماں کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں کہ اسکی ماں کیسی ہے؟، وہ کس طرح اسے یاد کرتی ہے؟، اسکی کیا عادات ہیں؟، وہ صبح و شام کیا کرتی ہے ؟وغیرہ۔ تو کیا بیٹا محض اس بنا پر اسے ماں تسلیم کرنے سے انکار کردیگا کہ اس نے اسے دیکھا نہیں؟۔وہ اپنی ماں کو دیکھے بنا اسکی صفات کو سمجھ سکتا، اسکے لمس کو محسوس کرسکتا، اسکی تڑپ دل میں لا سکتا اور اسکے تصور سے اپنے دل کو بہلاسکتا ہے۔ اللہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ ہم اسے دیکھے بنا اس کی صفا ت کو سمجھ کر اس کا عرفان حاصل کرسکتے ہیں۔
کیا صفات کی معرفت کافی ہے؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا ذات کی بجائے محض صفات کی معرفت کافی ہے؟ ذات درحقیقت ظاہر کا نام ہے اور صفات اس کا ظہور ہیں۔مثال کے طور پر ایک انسان کے پاؤں، ہاتھ، آنکھیں اور کان وغیرہ ہوتے ہیں یہ اس کا ظاہری ڈھانچہ ہے۔جب یہ انسان بولتا دیکھتا اورسنتا ہے تویہ اسکی صفات کہلاتی ہیں۔ کسی بھی شخص سے تعلق کی ابتدا تو ظاہری شخصیت ہی سے ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ تعلق اسکی صفات سے ہی قائم ہوتا اور ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ ایک صاحب سے ملتے ہیں اور انکی ظاہری شخصیت آپ کو پسند آتی ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک بھلا آدمی ہے۔ کچھ دنوں بعد آپ کی ان سے دوستی ہوگئی۔ لیکن بعد میں علم ہوا کہ وہ صاحب تو فحش فلموں کے شوقین ہیں ۔ آہستہ آہستہ آپ نے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں تو تعلق کا خاتمہ انکی ایک بری صفت کی بنا پر ہو ا جبکہ انکی ظاہری شخصیت ویسی ہی آب و تاب سے اپنی جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالٰی کے معاملے میں بھی ہمارا سارا تعلق اسکی صفت رحم و کرم، قدرت و عظمت، علم و حکمت اور خلاقی و ربوبیت کی بنا پر ہوتا ہے اس سے قطع نظر کے اسکی ذات کی ساخت کیا ہے؟
کیا نامکمل عرفان کفایت کرتا ہے؟
ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا نامکمل عرفان سے کام چل سکتا ہے؟ درحقیقت اللہ کی ذات لامحدود ہے جو انسان کے حیطہ ادراک میں نہیں آسکتی۔ اللہ کی ذات تو دور کی بات ہے انسان خود اپنی ذات کو بھی کامل طور پر نہیں سمجھ پایا لیکن جتنی معلومات زندگی گذارنے کے لئے ضروری ہیں انسان ان کو سمجھتا ، استعمال کرتا اور زندگی گذارتا ہے۔ چنانچہ انسان جب اپنی ذات کے کامل ادراک کے بغیر بھی معاملات کرسکتا ہے تو اللہ کے کامل عرفا ن کے بنا بھی یہ تعلق قائم ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ نے انسان کو عقل و فطرت اور وحی کے ذریعے وہ ضروری راہنمائی عطا کی ہے جو عبد و معبو د کے رشتے کو قائم کرنے کے لئے کافی ہے۔
معرفت کا طریقہ کیا ہے؟
اس سلسلے کا آخری سوال یہ ہے کہ کیا معرفت حاصل کرنے کا کوئی پراسرار یا خاص روحانی طریقہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو پہچاننے کا وہی ذریعہ معتبر ہوگا جس کی تو ثیق خود اللہ نے کی ہو۔چنانچہ اللہ کے عرفان کا نظری مواد قرآن میں موجود ہے اور اسکی عملی تصویر نبی کریمﷺ کی سنت میں ثبت ہے۔ لہٰذا ہر مراقبے، چلہ کشی، جنگلوں کے ڈیرے، اورادو وظائف کو قرآن و سنت کی کسوٹی سے گذرنا ہوگا خواہ وہ مشق کتنے ہے بڑے بزرگ کی بیان کردہ کیوں نہ ہوں۔
دوسرا حصہ : اللہ کی صفات اور ننانوے نام
گذشتہ بحث سے یہ بات واضح ہو جانی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان کا واحد ذریعہ وہ صفات الٰہی ہیں جنہیں اس دنیا میں سمجھا جاسکتا ہے۔ان صفات کو اہل مذہب ہی نے موضوع نہیں بنایا بلکہ فلسفیوں نے بھی ان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔مثال کے طور پر افلاطون کہتا ہے کہ خدا کو کلیات کا علم ہے جزیات کا نہیں۔ اسی طرح دیگر اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں نے بھی خدا کی صفات کا ایک خاکہ ضرور تعمیر کیا۔ مثلا ََ اہل عرب کے مشرکین یہ کہتے تھے کہ اللہ نے کائنات تخلیق تو کردی لیکن اس نے اپنے اختیارات میں لات، منات ، عزیٰ، ہبل اور دیگر بزرگ ہستیوں کو منتقل کردئیے۔ یا ہندو خدا کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ انسان کی صورت میں اوتار بن کر اس دنیا میں آتا ہے وغیرہ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو مذہب میں بگاڑ کی علمی وجہ اللہ کی صفات کی غلط تفہیم ہی ہے۔ انہی لوگوں کو سورۂ اعراف میں تنبیہ کی گئی ہے ۔
ترجمہ:" اور اللہ کے لئے تو صرف اچھے نام ہیں، اس کو انہی کے ساتھ پکارو اور ان لوگو کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں (صفات) کے ساتھ کج روی اختیار کررتے ہیں۔اور جو کچھ وہ کررہے ہیں عنقریب اس کا بدلہ پالیں گے" (الاعراف۱۸۰:۷)۔
چنانچہ یہ لازم ہے کہ ان صفات کو سمجھنے اور انہیں متعین کرنے میں حد درجے احتیاط سے کام لیا جائے۔ خوش قسمتی سے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی نازل کردہ کتاب قرآن مجید میں اپنی صفات کا بڑا تفصیلی تعارف کروایا ہے۔لہٰذا کسی اور ذریعے کی جانب رجوع کرنے سے قبل اللہ کی قرآن میں بیان کردہ صفات کو سمجھنا ضروری ہے۔
صفات الٰہی اور اسمائے حسنیٰ
لفظ "اللہ" خدائے بزرگ و برتر کا ذاتی نام ہے جبکہ الرحمٰن یا الرحیم وغیرہ اسکے صفاتی نام ہیں ۔قرآن میں اللہ کے ناموں سے مراد یہی اللہ کی صفات ہیں۔ ان صفات یا ناموں کو سمجھنا،ان کے ذریعے یاد کرنا ، ان کے ذریعے اس سے تعلق قائم کرنا ، اسے پکارنا ، اس کے آگے جھکنا، اس مدد طلب کرنا ہی اصل میں دین کی بنیاد ہے۔
یہی حقیقت اس حدیث میں بیان ہوتی ہے ۔
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے ننانوے نام ہیں، جو شخص ان ناموں کو یاد کر لے، تو وہ جنت میں داخل ہوگا، احصیناہ کے معنی ہیں، ، حفظناہ، (یعنی ہم نے اس کو یاد کر لیا) ہے"۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2244(
یہی حدیث صحیح مسلم میں بھی بیان ہوئی ہے لیکن دونوں ائمہ یعنی امام مسلم اور امام بخاری نے ۹۹ ناموں کی فہرست نہیں دی ہے۔ البتہ یہ فہرست ابن ماجہ ، ترمذی اور دیگر حدیث کی کتابوں میں بیان ہوئی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی حدیث سند کے اعتبار سے درست نہیں۔ امام ترمذی اور صاحب ابن ماجہ و دیگر نے تحکیم میں اپنی بیان کردہ احادیث کو خود ہی ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔ نیز جب ان احادیث میں بیان کردہ ناموں کی گنتی کی جاتی ہے تو یہ ۹۹ سے زیادہ نکلتے ہیں۔
جہاں تک بخاری و مسلم شریف کی احادیث کا تعلق ہے تو یہ اپنے محل کے اعتبار سے بالکل درست ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان احادیث میں "یاد کرنے" کے الفاظ نہیں بلکہ لفظ ہے " احصیناہ" جس کے معنی شمار کرنا ہوتے ہیں، چنانچہ اس سے مراد کوئی بھی ایسا شخص ہے جس نے اللہ کی بیان کردہ صفات کو شمار کیا،یاد کیا، ان پر ایمان لایا اور ان کے مطابق عمل کیا۔ یہی مفہوم صاحب مشکوٰۃ نے بھی اس حدیث کی تشریح میں کچھ علما ء کے حوالے سے نقل کئے ہیں۔( مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 808)۔
جہاں تک ۹۹ ناموں کی حتمی گنتی کا تعلق ہے تو یہ نام نہ تو قرآن میں متعین طور پر بیان ہوئے ہیں اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں ۔ کچھ علما ء جن میں امام رازی بھی شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ پانچ ہزار نام ہیں (تفسیر ابن کثیر)۔
امام نوووی لکھتے ہیں کہ (ترمذی کی) اس حدیث (جس میں اللہ کے ننانوے ناموں کا ذکر ہوا ہے) میں اسماء کا حصر نہیں ہےکہ یہی وہ ننانوے نام ہیں جن کو کسی نے گن لیا تو وہ جنت میں جائے گا اسکی وجہ ایک اور حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ " میں تجھ سے ہر نام کے وسیلےسے سوال کرتا ہوں(شرح صحیح مسلم جلددوم، بحوالہ شرح صحیح مسلم ازغلام رسول سعیدی۔جلد سابع صفحہ ۴۵۳۔) ترمذی اور ابن ماجہ کی وہ روایات جن میں ننانوے ناموں کا ذکر ہے ان کے حتمی نہ ہونے کا ثبوت ایک یہ بھی ہے کہ حافظ ابن حجر نے ان پر اتفاق نہیں کیا اور کچھ کمی و بیشی کے ساتھ ننانوے ناموں کی فہرست براہ راست قرآن سے اخذ کرنے کی کوشش کی (فتح الباری)۔ یہ ساری بحث مولانا منظور نعمانی کی معارف الحدیث جلد پانچ میں پڑھی جاسکتی ہے۔
چنانچہ ۹۹ ناموں کی تعداد پر اصرا ر ممکن نہیں ۔ غالباََ بخاری و مسلم کی احدیث میں ۹۹ کا ہندسہ کثرت کے بیان کے طور پر آیا ہے ۔ جیسے نبی کریم ﷺ سے ایک حدیث ہے کہ میں دن میں ۷۰ مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ تو یہاں ۷۰ کا مطلب یہ ہے کہ بہت زیادہ استغفار کرنا۔اس بات کی تصدیق قرآن کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے: "کہہ دو کہ اسے اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو،سارے اچھے نام اسی کے ہیں"(بنی اسرائیل:۱۱۰:۱۷)۔
صفات کے تعین کے اصول
اللہ کی صفات کو متعین کرتے وقت مندرجہ ذیل اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
۱۔ پہلا اصول یہ ہے کہ اللہ کا کوئی بھی نام یا صفت اپنی نوعیت کے اعتبار سے اچھی ہونی لازمی ہے اور کوئی بھی بری صفت کو اللہ سے منسوب کرنا اللہ کی ذات کے لئے عیب ہے جو ممکن نہیں۔ یہی حقیقت سورۂ اعراف میں بیان ہوئی ہے ۔
" اور اللہ کے لئےتو صرف اچھے نام(صفات) ہیں"(سورۂ اعراف ۱۸۰:۷)
۲۔دوسرا اصول یہ ہے کہ اللہ کا نام یعنی اسم تو "اللہ" ہے جبکہ دیگر ناموں کی حیثیت صفات کی ہے۔ چنانچہ اللہ کےصفاتی ناموں کی کسی مخصوص تعداد پر اصرار نامناسب ہے۔ جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل میں بیان ہوتا ہے ۔"کہہ دو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو سارے اچھے نام(صفات) اسی کے ہیں"( بنی اسرائیل ۱۱۰:۱۷)۔
۳۔ تیسر ا اصول یہ ہے کہ کسی صفت کو متعین طور پر اللہ کی صفت قرار دینے کے لئے کسی مستند ذریعہ کا ثابت ہونا لازمی ہے۔ اس مستند ذریعے کے بغیر استنباط سے اخذ کی گئی صفت پر بہر حال کلام ممکن ہے۔ سب سے مستند ذریعہ قرآن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی صفات بیان کی ہیں۔
۴۔ایک اور اصول یہ ہے کہ ہر صفت کا مفہوم متعین کرنے کا سب سے مستند ذریعہ چونکہ قرآن ہے چنانچہ قرآن کے سیاق سباق میں رہتے ہوئے صفت کی تفہیم بہتر ہے۔ پھر بعد میں اس کا اطلاق عام یا خاص کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر کچھ صفات مفرد بیان ہوئی ہیں جیسے عزیز ، علیم اور حکیم وغیرہ چنانچہ ان کا اطلاق مفرد اور عمومیت کے ساتھ ہی بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جبکہ کچھ افعال خاص پس منظر کے ساتھ بیان ہوئے ہیں جیسے"فالق الحب و النویٰ" (سورۃ انعام :۹۵:۶) قرآن کی ایک آیت ہے جس کا مطلب ہے " دانے اور گٹھلی کا پھاڑنے والا"۔ اس آیت میں "فالق یعنی پھاڑنے والا " اللہ کا فعل بیان ہواہے ۔ چنانچہ اس فعل کو عام کرکے اللہ کو علی الاطلاق "پھاڑنے والا " نہیں کہا جاسکتا ۔بلکہ اسے تخصیص کے ساتھ ہی بیان کیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ گٹھلی اور دانے کا پھاڑنے والا ہے ۔اسی طرح ایک اور آیت ہے کہ " ام نحن الزارعون"(سورۃ واقعہ ۵۶:۶۴) جس کا ترجمہ ہے کہ " یا ہم کھیتی اگانے والے ہیں"۔اس میں زارع یعنی اگانے والا"اللہ کا فعل بیان ہواہے لیکن یہ ایک مخصوص معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔
اسی طرح کچھ صفات کسی دوسر ی صفت کی خصوصیت کے طور پر بیان ہوئی ہیں مثال کے طور پر ایک جگہ بیان ہوتا ہے کہ اللہ شدید العقاب یعنی سخت بدلا لینے والےہیں۔ تو یہاں اللہ کو شدید کی صفت سے منسوب کرنا نامناسب ہوگا۔
۵۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کے بعض افعال بیان ہوئے ہیں۔ ان افعال سے بھی اکثر لوگ صفت اخذ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ آیت ملاحظہ فرمائیں
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (آل عمران ۲۶:۳)
ترجمہ: اور تو جسے چاہے عزت جسے چاہے ذلت دےتیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے۔
اس کی بنیاد پر اللہ کی مذل ( ذلت دینے والا) یا معز (عزت دینے والا) کی صفتیں اخذ کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس کا ایک مخصوص پس منظر میں ہے جس کا اطلاق تعمیم کے ساتھ ہر جگہ نہیں کیا جاسکتا۔
۶۔آخری اصول یہ ہے ہر صفت کو الگ الگ سمجھنے کی بجائے صفات کی درجہ بندی اور بڑے گروپ بنالینا زیادہ مناسب ہے تاکہ بہت سی صفات میں مماثلت کی توجیہ ہوسکےاور اس کے ساتھ ساتھ اسکی تفہیم بھی آسان ہوجائے۔
تیسرا حصہ : صفات الٰہی کا بیان
اس مضمون میں صرف قرآن میں بیان کردہ وہ صفات الٰہی شامل کی گئی ہیں جو خود قرآن میں بطور صفت آئی ہیں ۔ یعنی اس مضمون میں کوئی صفت استنباطی نہیں بلکہ براہ راست ایک صفت الٰہی کی حیثیت رکھتی ہے۔نیز اس میں وہ صفات بیان ہوئی ہیں جو تعمیم کے ساتھ علی الطلاق بیان کی جاسکتی ہیں ۔اسی طرح قرآن میں بیان کردہ صفات کو درجہ بندی کرکے پانچ بڑے زمروں یعنی گروپ میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
صفات کی گروہ بندی
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ تما م صفا ت کو انکی نوعیت کے اعتبار سے پانچ بڑے گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ پہلا گروہ صفات رحم الٰہی ، دوسرا قدرت الٰہی، تیسرا علم الٰہی ، چوتھا خلاقی الٰہی اور پانچواں توحید الٰہی پر مشتمل ہے۔
گروپ نمبر ۱۔ رحم الٰہی
صفات رحم و کرم اللہ تعالیٰ کا مخلوق کے ساتھ انتہائی مہربانی، شفقت، رحم، نرم دلی اور سخاوت اور بخشش کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا ، ان میں تقاضے پیدا کئے اور پھر ان تقاضوں کو انتہائی خوبی کے ساتھ پورا کرتے ہوئے اپنی رحمت، لطف اور کرم نوازی کا اظہار کیا۔چنانچہ کبھی وہ مخلوق پر محبت اور شفقت نچھاور کرتا نظر آتا ہے تو کبھی مخلوق کی بات سنتا، انکی غلطیوں تحمل سے پیش آتا، انکی خطاؤں سے درگذر کرتا ، نیکو کاروں کی قدر دانی کرتا اور اپنی حکمت کے تحت انہیں بے تحاشا نوازتا دکھائی دیتادیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک بندہ جب مشکل میں گرفتا ر ہوتا تو وہ اسکے لئے سلامتی بن جاتا، اسے اپنی پناہ میں لے لیتا، اسکی مشکلات کے سامنے چٹان بن جاتا، آگے بڑھ کر اسکی مدد کرتا اور گھٹاگھوپ اندھیروں میں ہدایت کا نور بن جاتا ہے۔ یہی لطف و کرم اللہ کا پہلا تعارف ہے جو انسان کو اس کے سامنے جھکاتا، اسکا احسان مند بناتا اور اسے شکر پر مجبور کرتا ہے۔
اس اجمالی بیان کے بعد تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں کہ قرآن نے کس طرح ان صفات کو بیان کیا اور انکی تشریح کی ہے۔ رحم کے گروپ میں مندرجہ ذیل ذیلی گروپ آتے ہیں۔
الف۔شفقت و مہربانی کی صفات
اس ذیلی گروپ کی مرکزی صفت اللہ تعالیٰ کا مخلوق کے ساتھ محبت، شفقت، نرم دلی اور مہربانی کا اظہار ہے۔ یہ اس کی شفقت اور محبت ہی ہے کہ وہ کھلاتا،پلاتا، سلاتا ،جگاتا، اٹھا تا ، بٹھاتا ہے۔جب انسان گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے تو اسے ماں کا گہوارہ اور باپ کی شفقت فراہم کرتا ہے۔جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ پاؤں کو طاقت بخشتا اور ماحول کو سازگار بنادیتا ہے۔ غرض وہ کسی لمحے انسان پر شفقت و عنایت کرنا نہیں بھولتا خواہ وہ اس کو ماننے والا ہو یا اس کا انکاری ہو۔ اس زمرے میں درج ذیل صفات آتی ہیں۔
ا۔الرّحمٰن
اسم "اللہ "کے بعد یہ پہلی صفت ہے جو بڑی شدو مد سے قرآن میں بیان ہوئی ہے۔رحمٰن کا مطلب ہے سراپا رحمت ۔ یعنی اللہ اپنے بندوں کے لئے سرتا سر رحمت ہیں۔ انکی رحمت، مہربانی اور عطا کا دریا بے انتہا جوش اور طاقت کے ساتھ ابل رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ کائینات کی ہر شے کو اپنا فیض پہنچارہا اور اسے سیراب کررہا ہے۔ یہ اسی رحمانیت کی بدولت ہے کہ رات انسان کے لئے آرام کا بچھونا فراہم کرتی، دن معاشی سرگرمیوں کے لئے حاضر خدمت ہوجاتا ہے۔
۲۔الرحيم
اس کا لفظی ترجمہ ہے شفقت ، مہربانی اور نرم دلی۔ یہ صفت بھی اپنے بنیادی مفہوم کے اعتبار سے رحمٰن کے قریب تر ہے ۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی تحقیق کے مطابق یہ رحمت کےاستمرار ، دوام اور پائداری کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی اللہ کا رحم اور شفقت کوئی ایک دن کا معاملہ نہیں کہ جوش آیا تو سب کچھ نچھاور کردیا اور جب ولولہ ٹھنڈا ہوا تو ہاتھ روک لیا۔۔بلکہ رحیم کی صفت رحمت کے دریا کے تسلسل کو ظاہر کرتی ہے۔لہٰذا ایسا نہیں کہ سورج ایک دن اپنی حرارت فراہم کرتا اور دوسرے دن ٹھنڈار ہوجاتا ہے ، یا رات کچھ عرصے تک نیند کا سامان مہیا کرتی اور پھر بے چینی باعث بن جاتی ہے یا ماں کی گود ایک وقت میں گہوارا اور دوسر ے وقت میں انگارہ ہوجاتی ہے۔ بلکہ یہ لطف و کرم ، مہربانی اور عنایتوں کا سلسلہ بغیر کسی انقطاع کے جاری و ساری ہے اور جب تک اللہ چاہیں گے جاری رہے گا۔
۳۔الكريم: اس کے لغوی معنی کرم کرنے والا،نوازنے اور عطا کرنے والا، درگذر کرنے والا کے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان
تما م ہی معنوں میں کریم ہیں۔
۴۔الودود: اس کا مطلب محبت کرنے والی ہستی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کرتے ہیں لہٰذا کوئی اگر ان سے مغفرت طلب کرے، انکی جانب پلٹے، اپنی خطائوں پر نادم ہو جائے تو اللہ بھی اس کی جانب توجہ کرتے، اسے اپنی محبت اور الفت کے پردے میں چھپالیتے اور اس پر اپنے جودو کرم کی بارش کردیتے ہیں۔
۵۔الرؤوف۔ اس کے مفہوم میں مہربان ، شفیق، ترس کھانے والی ذات شامل ہے۔
۶۔الشكور۔ مطلب بہت زیادہ قدردان۔یعنی اللہ تعالیٰ نیکو کاروں اور بھلائی کرنے والوں کے بڑے قدردان ہیں۔
۷ ۔ الحليم۔ بڑاہی بردبار۔ اسی لئے علانیہ نافرمانی بھی اس کو مجرمین کو فوری سزا پر آمادہ نہیں کرتی اور گناہوں کی وجہ سے اللہ ان کا رزق بھی نہیں روکتے۔
۸۔الحمید۔ اس سے مراد ممدوح، ستودہ، پسندیدہ اور قابل تعریف ہستی ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ انتہائی تعریف کے قابل اور پسندیدہ صفات کے حامل ہیں۔
۹۔الوهاب۔ بغیر غرض کے اور بغیر عوض کے خوب دینے والا۔ بندہ بھی کچھ بخشش کرتا ہے مگر اسکی بخشش ناقص اور ناتمام ہے جبکہ اللہ تعالی کی بخشش کامل تر ہے اور اس میں سب کچھ ہی داخل ہے۔
۱۰۔البر : احسان کرنے والا۔ اللہ کا وجود بخشنا، پالنا اور زندگی کی نعمتیں فراہم کرنا یقینی طور پر ایک احسان ہے۔
ب ۔سلامتی و امن کی صفات
رحم کا ایک اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مخلوق کو داخلی اور خطرات سےبچایا جائے، اسے پناہ دی جائے، اسے سکھ چین ، آرام اور سکون فراہم کیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر سکھ ، چین اور راحت کا منبع ہے۔لہٰذا آسمانی آفتیں ہوں یا زمینی تباہ کاریاں، نفس کی فتنہ انگیزیاں ہوں یا اور شریر شیاطین جن و انس کی کارستانیاں، ہر داخلی اور خارجی خطرے میں اللہ ہی لوگوں کو اپنی حکمت کے تحت سلامتی ، امن اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس ذیلی گروپ میں درج ذیل صفات مذکور ہیں۔
۱۔السلام
اس کا مفہوم آسودگی ، راحت ، قرار، اطمینان، سکون اور آرام ہیں ۔ہماری زندگیوں میں سکون اطمینان او ر قرار کا منبع اللہ ہی کی ذات ہے چنانچہ وہ سراسر سلامتی یعنی سکون اور راحت دینے والی ہستی ہیں ۔
۲۔المؤمن
اس کا مطلب امان یا پناہ دینے والی شخصیت کے ہیں ۔چنانچہ شیطان کے حملوں سے بچنے کےلئے بندہ خدا کی پناہ طلب کرتا ہے۔ دنیاوی مصیبتوں اور پریشانیوں میں بھی اللہ کی رحمت کے دامن میں پناہ کا طالب ہوتا ہے اور آخرت میں حشر ، جہنم اور خود اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اللہ ہی سے امان طلب کرتا ہے۔
۳۔المہیمن
اس کے معنی خلیل، نگران، محافظ، معتمد اور وکیل کے ہیں۔یہ اپنے معنوں میں امان، پناہ دینے، مقدمہ لڑنے اور نگرانی کرنے سب کے معنوں میں آتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مسلسل نگرانی کرتے ، انہیں پناہ دیتے اور مشکلات میں مدد طلب کرنے پر انکی وکالت کرتے ہیں۔
۴۔الصمد ۔ پناہ کی چٹان، ایک مضبوط پناہ۔ پناہ کی ایک خوبی تو یہ ہوتی ہے کہ وہ محفوظ ہو اوردوسر ی خوبی یہ کہ وہ مضبوط ہو۔ چٹان میں یہ دونوں خوبیاں ہوتی ہیں اور اگر وہ چٹان اللہ کی ہو تو اس کی کاملیت کا اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں۔
۵۔الولی۔مددگار اور دوست رکھنے والا یعنی اہل ایمان کا محب اور ناصر۔
۶۔المولٰی ۔حامی و مدد گا
۷۔المستعان ۔جس سے مدد مانگی جائے
۸۔النصیر ۔نصرت اور فتح دینے والا اور مدد کرنے والا۔ اللہ ہر مرحلے پر اپنی مخلوق کی مدد کرتے اور انہیں مصیبت سے نکالتے ہیں۔
ج ۔عفو و درگذر کی صفات
رحم کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مخلوق کی کوتا ہیوں سے صرف نظر کیا جائے، نادم ہونے والوں پر شفقت کی نگاہ ڈالی جائے اور بخشش طلب کرنے والوں کو معاف کردیا جائے۔ اس ضمن میں درج ذیل صفات مذکور ہیں۔
۱۔ العفو ۔ اس کا مطلب درگذر کرنا،صرف نظر کرلینا
۲۔ الغفار:اس کے لغوی معنی کا مطلب ڈھانک دینا ، چھپا لینا، مٹادینا ہے جبکہ اصطلاحی معنی بہت بخشنے گناہوں کو بخشنے والا۔
۳۔ الغفور :بخشش کرنے والا
۴۔التواب :توبہ قبول کرنے والا، رجوع کرنے والوں پر متوجہ ہونے والا۔
د۔ ہادی کی صفات
اسی رحمت کا ایک اور تقاضا یہ ہے کہ مخلوق کو ہدایت فراہم کی جائے، حق کے متلاشی لوگوں کو راہ دکھائی جائے، علم کھوجنے والوں کو درست سمت دکھائی جائے۔اس میں مندرجہ ذیل صفات آتی ہیں۔
۱۔ النور۔ اللہ بذات خود ظاہر اور روشن ہے اور دوسروں کوظاہر اور روشن کرنے والا ہے۔ نور اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو خود ظاہر ہو اور دوسرے کوظاہر کرتا ہو۔ آسمان و زمین سب ظلمت عدم میں چھپے ہوئے تھے۔ اللہ نے انکو عدم کی ظلمت سے نکال کر نور وجود عطا کیا۔ جس سے سب ظاہر ہوگئے۔ اس لئے وہ نور السموات والارض یعنی آسمان و زمین کا نور ہے۔
۲۔ الہادی۔سیدھی راہ دکھانے اور بتانے والا کہ یہ راہ سعادت ہے اور یہ راہ شقاوت ہے اور سیدھی راہ پر چلانے والا بھی ہے۔
گروپ نمبر ۲۔ قدرت الٰہی
یہ گروپ اللہ کی قدرت سے متعلق صفات کا احاطہ کرتا ہے۔ قدرت کا مادہ القدر ہے جس کے لغوی معنی کسی چیز کی انتہا ، طاقت و قوت، عزت او روقار ہے جبکہ القدرۃ کا مفہوم فعل یا ترک فعل کی طاقت ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہر کام کے کرنے پر قادر ہے۔ نیز وہ ہر شے ، فعل یا ارادے کو ایک متعین پیمانے کے مطابق پورا کرنے پر قادر ہے۔لیکن اس کا ہر کام اسکی حکمت کے مطابق ہوتا ہے چنانچہ اس قسم کے لایعنی سوالات کی اس ضمن میں کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ کیا اپنے ہی جیسا کوئی پیدا کرناپر قادر ہے یا نہیں۔
قدرت کے ذیلی گروپ دو ہیں ایک عظمت اور دوسرا طاقت و غلبہ۔
الف۔ عظمت کی صفات
قدرت الٰہی کا ایک اہم پہلو عظمت شان اور شوکت ہے۔ یعنی جب وہ ہستی کچھ بھی کرنے پر قادر ہے تو لازماََ وہ انتہائی عظیم ، بلند اور شان و شوکت والی ذات ہے۔اس عظمت اور بلندی میں اس کی قدرت کی شانیں پوری طرح نمایاں ہیں۔
۱۔الملك۔اس کے معنی بادشاہ، فرمانروا اور سلطا ن کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بادشاہ ہیں بادشاہ سے مراد ایک صاحب تخت و تاج، خود مختار حکمران ہے جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔چونکہ اللہ فرمانروا ہیں لہٰذا وہ اپنا فرما ن یعنی حکم نامہ اپنے رسولوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے اور اپنی مخلوق سے ان احکامات کو ماننے کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ سلطان ہیں یعنی مقتدر اور بااختیار حاکم چنانچہ وہ اپنی مخلوق پر ہر قسم کا تصرف رکھتے ہیں ، انہیں کسی مخالف کا خوف نہیں، انہیں کسی رعایا کی بغاوت کا اندیشہ نہیں وہ اپنی سلطنت کے ایک ایک پتے اور ہر ذرے پر مکمل اقتدار رکھتے ہیں۔
۲۔العظيم۔اس کا مفہوم بڑا، بزرگ، صاحب عظمت، شاندار، جاہ و جلال والی ہستی کے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ لامتناہی شان و شوکت کے مالک ہیں۔
۳۔المتکبر ۔تکبر کرنے والی اور کمالِ بزرگی والی ذات اس کا مفہوم ہے۔ تکبر کرنے کا مطلب خود کو بڑا سمجھنا، اپنی صفت میں خود کو دوسروں سے برتر محسوس کرنا بھی شامل ہیں۔ تکبر اللہ کے سوا ہر دوسرے کے لئے ایک منفی اور جھوٹا دعویٰ ہے۔ اللہ اپنی ذات اور صفا ت میں ہر لحاظ سے مطلق طور پر برتر ہیں اور ان کا یہ تکبر ذاتی ہے ناکہ کسی کا عطا کردہ۔چنانچہ یہ تکبر اللہ کوزیبا بھی ہے اور ان کا حق بھی۔ کوئی دوسر ااگر تکبر کرتا ہے تو وہ خدا کی ہمسری کا دعویٰ کرتا ہے۔
۴۔العلی۔بہت بلند و برتر کہ جس سے اوپر کسی کا مرتبہ نہیں ہو۔
۵۔الوكيل۔اس کا مطلب مددگار، معتمد، کارساز ، کام بنانے والے اور وکالت کرنے والے کے ہیں۔ ایک وکیل کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ معاملے کا علم و ادراک رکھتا ہو، اس مسئلے کو حل کرنے میں ماہر ہو، اپنے مؤکل سے ہمدردی رکھتا ہو،مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ ہو، مسئلہ حل کرنے کی طاقت اور قدرت رکھتا ہو وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ان تما م امور میں کامل ترین صفات رکھتے ہیں ۔ چنانچہ ان سے بہتر کام بنانے والا اور اعتماد کے قابل کوئی نہیں ہوسکتا ۔ شرط یہ ہے کہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کام کیا جائے۔
۶۔الكبير۔ بہت بڑا اور بلند ۔
۷۔المجيد: بڑا بزرگ۔ وہ اپنی ذات ، صفات اور افعال میں بزرگ ہے۔
۸۔الغنی۔ اس کے معنی بے نیاز، بے پروا، ہر احتیاج سے ماورا ہستی کے ہیں۔چونکہ زیادہ تر ضروریات کا تعلق دولت سے ہوتا ہے اس لئے دولت مند آدمی کو بھی غنی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام ضرورتوں اور احتیاجات سے بے نیاز ہیں جو انسان کے تصور میں آسکتی ہیں۔ یعنی اللہ کو نہ تو مال کی ضرورت ہے نہ لوگوں کی عبادت کی، نہ اولاد کی نہ بیوی کی نہ کسی مددگار کی۔ وہ بے نیاز ہیں کہ کسی کی اچھائی سے کوئی فائدہ ہو یا کسی کی برائی انہیں نقصان پہنچائے۔
۹۔القدوس ۔اس کا مطلب ہر نقص، عیب، برائی سے پاک اور منزہ ہستی کے ہیں۔یعنی اللہ کسی بھی غلط تصور یا عیب داری سے پاک ہے۔ چنانچہ شریک ہونا عیب ہے۔ اسی طرح اللہ ہر قسم کے ظلم، ناانصافی، بدیانتی ، بے حکمتی ، جذبات کی مغلوبیت اور ہر غلط صفت یا فعل سے پاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ہر حال میں ہر عیب سے پاک ماننا بالخصوص ناموافق حالات میں اسے قدوس سمجھنا ہی اس صفت کا تقاضا ہے۔
۱۰۔القيوم
قیوم، قیام سے نکلا ہے، قیام کے معنی کھڑا ہونا، قائم کھڑا ہونے والے کو کہتے ہیں۔لیکن قیوم مبالغہ کا صیغہ ہے اس کا مطلب قائم بالذات، بہت قائم ہونے والا، ہمیشہ رہنے والا، بہت اصلاح امور کرنے والا کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قائم ہیں یعنی وہ دیگر مخلوقات کے برخلاف خود سے قائم ہیں اور انہیں کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں جبکہ باقی ساری مخلوق قائم ہونے کے لئے اللہ کے سہارے کی مرہون منت ہے۔قائم ہونے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ مسلسل اپنی مخلوق کی نگرانی، حفاظت، پرورش اور انتظام کررہے ہیں اور اس تسلسل کے باوجود وہ تھکتے نہیں ہیں اور نہ ہی کسی اونگھ اور غفلت کا شکار ہوتے ہیں۔نیز ان کا یہ قیام کوئی عارضی نہیں جیسے درخت اپنی جوانی میں تو قائم و دائم رہتا ہے لیکن ایک مدت کے بعد زمیں بوس ہوجاتا ہے۔ اللہ قیام کے عارضی ہونے سے پاک ہیں۔
۱۱۔المميت ۔موت دینے والا۔
۱۲۔ الحئی۔ اس کا مطلب زندہ ہستی ہے۔ ایک زندہ ہستی کی خصوصیات میں بولنا، دیکھنا، سننا، سمجھنا، فیصلہ کرنا، محسوس کرنا ، جواب دینا، تخلیق کرنا، اپنی ملکیت کی چیزوں پر تصرف کرنا سب شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان معنوں میں بھی زندہ ہیں اور انکی ہر صفت لامتناہی ہے۔ دوسری جانب انکی زندگی کسی کی عطا کردہ اورعارضی نہیں بلکہ وہ ازل سے ہیں اور ابد تک زندہ رہیں گے۔ تیسرے یہ کہ وہ زندہ ہیں اس شان سے کہ تمام مخلوقات کی حیات انکی زندگی کے سبب ہے۔چوتھا یہ کہ مخلوقات کی ناقص زندگی کے برخلاف انکی حیات کسی نیند، غفلت، اونگھ، جذبات سے مغلوبیت ، بے ہوشی وغیرہ سے پاک ہے۔
۱۳۔ذوالجلال۔اس کا مفہوم رعب داب، وجاہت، صفت قہاری، عظمت، بزرگی، بڑائی، شان اورشوکت والی ہستی کے ہیں۔جلال میں ایک طرح کے رعب دبدبے کے ساتھ شان و شوکت اور بڑائی کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی جتنی طاقت، عظمت اور ستودہ صفات کی حامل ہے اس کے سامنے شعور کے ساتھ کھڑے ہونے پر لامحالہ ایک دبدے اور رعب کا احساس ہوتا اور اپنی کم مائگی کی بنا پر خشیت، تذلل اور پستی کا ادراک ہوتا ہے۔
۱۴۔المتعال۔ بہت بلند ہستی
۱۵۔ الاول۔ اللہ تعالیٰ اول ہیں یعنی ان سے پہلے زمانی لحاظ سے کسی کا وجود نہ تھا نیز ہر شے کی ابتدا سے پہلے آپ موجود تھے چنانچہ ہر شے کے خالق اور مالک آپ ہی ہیں۔
۱۶۔الآخر۔ زمانی اعتبار سے اللہ تعالیٰ آخر ہیں یعنی جب سب کچھ فنا ہوجائے گا تو اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی۔
۱۷۔الظاہر۔ اس کے لفظی معنیٰ صاف، واضح، کھلا ہوا اور عیاں ہستی کے ہیں۔ اللہ کی ذات کسی بھی نمایاں شے کے مقابلے ،میں واضح ہے۔کسی شخصیت کے نمایاں یا ظاہر ہونے کے لئے اس کی کسی تخلیق یا کارنامے کو بنیا د بنا کر اس کے ظہور کو نمایا ں کیا جاتا ہے۔یہ زندگی کی چہل پہل، چرند پرند، نباتات وجمادات، نت نئے جانور، مختلف شکلوں کے انسان، سب کچھ اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں چنانچہ اللہ اپنی تخلیق کے ذریعے سب سے نمایاں ، اعلیٰ اور ارفع ہیں۔
۱۸۔ الباطن۔ اس سے مراد وہ ذات ہے جو مخفی، پوشیدہ، پنہاں، چھپی ہو اور جو نظر نہ آ سکے ۔ کسی ذات کے باطنی یعنی مخفی یا پوشیدہ ہونے کا ایک پہلو تو یہ ہوتا ہے کہ وہ مادی طور پر لوگوں کی نگا ہوں سے اوجھل ہو۔ جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسکی صفات،کارنامے، باتیں، منصوبے اور حکمتیں مکمل طور پر حیطۂ ادراک میں نہ سما پائیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ان دونوں معنوں میں باطن ہے کہ نہ اسے کوئی دیکھ سکتا ہے اور نہ کوئی اس کی صفات کا مکمل احاطہ کرسکتا ہے۔
ب۔طاقت و غلبے کی صفات
۱۔العزيز ۔اسکا مفہوم ، عزت والی، زبردست، صاحب قوت و اختیار، غالب اور قادر ہستی کا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ غالب اور قوی ہیں یعنی ان پر کوئی حاوی نہیں آسکتا، ان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ حاوی دو صورتوں میں ہوا جاتا ہے ایک عزت، شرف یا اسٹیٹس کی بنیاد پر اور دوسرا طاقت کی بنیاد پر ۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بڑے سے بڑا صا حب حیثیت اور عزت دار شخص کمتر ہے چنانچہ اس حیثیت میں تو غلبہ ممکن نہیں۔رہی بات طاقت کی تو اللہ اپنی طاقت اور اقتدار میں زبردست ہیں اور وہ قادر مطلق ہیں لہٰذا وہ کبھی زیر دست نہیں ہوسکتے۔کوئی لشکر، کوئی جنتر منتر، کوئی بدروح، اور کسی بادشاہ کی طاقت ان پر اپنا غلبہ نہیں کرسکتی بلکہ تمام طاقتیں ان کے ماتحت ہیں۔
۲۔ الجبار۔قوت و شوکت کا مالک، زورآور، قوی، قاہر وغیرہ اس کے مفہوم میں آتے ہیں۔ عربوں نے جبار یا جبارہ اس کھجور کے درخت کو کہا ہے جس پر چڑھنے کی ضرورت واقع ہو یا بغیر کسی سیڑھی کے اس کے خوشوں تک ہاتھ نہ پہنچ سکے۔" [ 1907ء، فلاحۃ النخل،۵۶]۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ تصور سے زیادہ طاقتور، گمان سے زیادہ قوی اور شان و شوکت کے مالک ہیں اور کسی سرکش، بڑے سے بڑے طاقتور اور باجبروت بادشاہ کا ناپاک ہاتھ اللہ کی عظمت اور طاقت کی بلندی کو چھو بھی نہیں سکتا۔ اسی جبار ہونے کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ سرکش اور فساد پھیلانے والوں کو تنبیہ کرتے اور نہ ماننے کی صورت میں اپنی لامتناہی طاقت کے ذریعے انہیں دنیا اور آخرت دونوں میں فنا کرتے ہیں۔
۳۔القهار ۔ غلبہ رکھنے والا، قابو اور کامل کنٹرول کرنے والا
۴۔القاہر ۔غلبہ والا۔
۵۔القوی۔ بہت زور آور۔
۶۔المتين۔ شدید قوت والا جس میں ضعف اضمحلال اور کمزوری کا امکان نہیں اور اسکی قوت میں کوئی اس کا مقابل اور شریک نہیں۔
۷۔القادر۔ قدرت والا۔ اسے اپنے کام میں کسی آلہ کی بھی ضرورت نہیں اور وہ عجز اور لاچارگی سے پاک اور منزہ ہے۔
۸۔المقتدر۔عظیم قدرت والا
۹۔القدیر ۔اس کا مفہوم قدرت یا طاقت کا مالک؛ توانا کے ہیں۔ ایک شخص کی قدرت اسکے اختیارات، طاقت، برتری اور اسٹیٹس کا اظہار ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ چونکہ بادشاہ مطلق ہیں اس لئے وہ ہر کا م کرنے پر قادر ہیں۔ وہ طاقت کے لحاظ سے کسی بھی مشکل اور ناممکن کام کو کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ وہ حکمت کے لحاظ مشکل ترین گتھی کو سلجھناے پر قادر ہیں۔ وہ خزانوں کے مالک ہونے کے لحاظ سے امیر کو غریب اور غریب کو امیر بنانے پر قادر ہیں وہ بانجھ کو اولا د دینے، بن باپ تولید کا سلسلہ چلانے اور اسباب و علل سے ماورا ہر وہ کام کرنے پر قادر ہیں جو بظاہر مشکل لگتا ہے۔ لیکن وہ اپنے کاموں کی قدرت کا اظہار اپنی حکمت کے ساتھ کرتے ہیں۔
۱۰۔المالک ۔اس کے لفظی معنی میں کسی چیز کی ملکیت رکھنے والا ،والی ، آقا، صاحب ، حاکم ، بااختیار، قابض، متصرف کے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان تمام حیثیتوں میں مالک ہیں یعنی وہ زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی ہر چیز کی ملکیت رکھتے ہیں۔چونکہ وہ مالک ہیں تو ان سب پر حاکم بھی ہیں مزید یہ سب کچھ ان کے قبضے میں ہے اور کسی کو مطلقا انہوں نے کچھ نہیں دیا۔وہ ان چیزوں پر تصرف بھی رکھتے ہیں۔
۱۱۔الجامع ۔ جمع کرنے والا یعنی اللہ ایک روز تمام لوگوں کو زندہ کرکے ایک جگہ پر جمع کرنے والے ہیں تاکہ ان کا حساب کتاب لیا جاسکے۔
۱۲۔الوارث۔ یعنی باقی رہ جانے والی ذات۔مطلب یہ ہے کہ جب سب فنا ہوجائے گا تو تنہا وارث اللہ ہی کی ذات ہوگی۔
۱۳۔الحکم ۔ فیصلہ کرے والا
۱۴۔الحاکم۔ حکم نافذ کرنے والا
۱۵۔الحق۔ سچا ۔ انصاف کرنے والا
۱۶۔قائم بالقسط۔قسط یعنی انصاف کے ساتھ قائم ہونے والا
گروپ نمبر ۳۔ علم الٰہی
یہ گروپ اللہ تعالیٰ کے علم سے متعلق ہے۔ علم کا مطلب ہے جاننا۔ جاننے کا عمل دو پہلوؤں پر منحصر ہوتا ہے پہلا پہلو تو علم کے ذرائع سے متعلق ہے اور دوسرا علم کی نوعیت اور گہرائی کے بارے میں ہے۔مثال کے طور پر ایک انسان دیکھ کر یا سن کر کسی شے کا علم حاصل کرتا ہے چنانچہ دیکھنا یا سننا علم کا ذریعہ ہے۔ ایک شخص جو دیکھنے یا سننے کی صلاحیت سے محروم ہو تو وہ اس کے ذریعے حاصل کردہ علم سے بھی محروم رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ علم حاصل کرنے کے تما م ذرائع پر بلا کسی محدودیت کے مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ دوسری جانب اللہ علم کی نوعیت ، اسکی باریک بینی، اسکی اصل حقیقت اور حکمت پر بھی کامل عبور رکھتے ہیں۔
الف۔ذریعہ علم کی صفات
۱۔السميع: بہت زیادہ سننے والا۔ اللہ تعالیٰ کی سماعت ہر قسم کی تحدید اور عیب سے پاک ہے۔ انسان جب کچھ غور سے سن رہا ہوتا ہے تو باہر کا شور اس کے سننے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے، اسی طرح وہ ایک مخصوص فریکوئینسی سے اوپر کی آواز نہیں سن سکتا، وہ غیر زبان کو سن کر سمجھ نہیں سکتا، وہ بیک وقت کئی سمتوں سے آنے والی آوازوں کو نہ سن سکتا اور نہ سمجھ سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی سماعت ان تما م عیوب سے پاک ہے۔ اللہ بیک وقت اربوں کھربوں آوازوں کو ان سکتے اور سمجھ سکتے ہیں خوا ہ وہ کسی زبان یا انداز میں ہوں۔وہ چیونٹی کے رینگنے کی آواز سے لے پہاڑوں کے پھٹنے کی بلند آواز بھی سن سکتے ہیں۔کوئی بھی شور انکی سماعت میں خلل پیدا نہین کرسکتا وغیرہ۔
۲۔البصير: اس کا مفہوم بصارت رکھنے والا، دیکھنے والا، بصیرت رکھنے والا، دانا، باخبر کے ہیں۔ انسان اور دیگر مخلوق کی بصارت محدود اور ناقص ہے۔ مخلوق ایک وقت میں ایک ہی سمت دیکھ سکتی ہے، یہ بہت زیادہ بڑی اور بہت زیادہ چھوٹی اور ایک حد سے زیادہ روشن چیزوں کو نہیں دیکھ سکتی، یہ مخفی اور نگاہوں سے پوشیدہ شے کا احاطہ نہیں کرسکتی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی بصارت اعلیٰ، ارفع ہر عیب سے پاک اور کامل تر ہے۔اللہ کا دیکھنا لامحدود ہے ہے اور اس کی بصارت بیک وقت تمام چیزوں کو دیکھ سکتی ہے۔
۳۔الخبير: خبر رکھنے والا۔ اس کا مفہوم خبر رکھنے والا، واقف اور دانا کے ہیں۔علیم اس کی مترادف صفت ہے۔البتہ خبیر کسی مخصوص معاملے کو تفصیل سے جاننا جبکہ علیم ایک اجمالی علم رکھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔خبیر ہونے کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام اطلاعات اور خبریں ہیں کہ کون کیا کررہا ہے ۔ وہ یہ متعین اور مستقبل کی خبر رکھتا ہے کہ کون کل کیاکرے گا، کہاں اسے موت آئے گی، یا حاملہ کیا جنے گی یا بارش کہاں ہوگی کب ہوگی وغیرہ۔
۴۔القریب: قربت رکھنے والا
۵۔الرقيب: نگران
ب۔نوعیت علم کی صفات
۱۔العالم یا العليم: بہت زیادہعلم رکھنے والا
۲۔اللطيف: باریک بین۔یعنی اللہ باریک سے باریک بات کے جاننے والے ہیں۔ساتھ ہی وہ ہر معاملے اور خبر کو جزئیات تک جانتے اور کسی بھی معاملے کی بڑی باریک بینی سے تدبیر کرتے ہیں۔
۳۔الحفيظ: نگران ہستی
۴۔الحسيب: انتہائی تعین کے ساتھ حساب کتاب کرنے والا
۵۔الشہيد: حاضر و ناظر اور ظاہر و باطن پر مطلع اور بعض کہتے ہیں کہ امور ظاہرہ کے جاننے والے کو شہید کہتے ہیں اور مطلق جاننے والے کو علیم کہتے ہیں۔
۶۔المجيب: دعاؤں کا قبول کرنے والا اور بندوں کی پکار کا جواب دینے والا۔
۷۔الحكيم: صاحب حکمت، عالم، دانا، دانشور، باشعور۔اللہ تعالیٰ کے حکیم ہونے کا مفہوم یہی ہے کہ وہ لامتناہی طور پر دانا، سمجھدار اور دانش والے ہیں ۔ ایک کار کو اگر کوئی عقل سے عاری اور اناڑی ڈرائیور چلائے تو جلد یا بدیر کار کسی جگہ سے ٹکرا کر تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر یہ کائینات کسی غیر حکیم اور بے شعور چلانے والے کے ہاتھ میں ہوتی تو اب تک کئی مرتبہ تباہ ہوچکی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت، انتہائی درجے کی غایت اور مصلحت پر مبنی ہوتا ہے لیکن ان کاموں کی مصلحتوں کو کامل طور پر احاطہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔حکمت کا معاملہ یہ ہے کہ ایک دانا شخص کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے کم از کم اتنی ہی دانائی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی دانائی اور دانش تک کوئی نہیں پہنچ سکتا چنانچہ اس کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھ لینا ممکن نہیں۔ چنانچہ زلزلوں سے بستیوں کا اجڑ جانا، انسان کی معذوری، کیڑے مکوڑوں کی تخلیق، اور دیگر سمجھ میں نہ آنے والے کاموں کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ اس حکمت کے ایک پہلو کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضرت موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں سمجھایا ہے۔اسی لئے اس دنیا کی بہت سے امور سمجھ سے باہر ہیں ۔ پس جو معاملہ سمجھ میں آجائے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور سمجھ سے باہر ہو اس پر اللہ کی حکمت پر اجمالی ایمان اور اطمینان رکھنا ہی ایمان کا تقاضا ہے ۔
گروپ نمبر ۴۔ تخلیق و ربوبیت سے متعلق صفات
الف۔تخلیق کی صفات
۱۔الخالق: مشیت اور حکمت کے مطابق ٹھیک اندازہ کرنے والا اور اس اندازہ کے مطابق پیدا کرنے والا ، تخلیق کی ابتدا کرنے والا موجد۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا ابتدائی ڈیزائن بغیر کسی نقالی کے بناتے اور اسے وجود بخشتے ہیں۔ مثال کے طور آدم کا نقشہ بنانا کہ اس کا کس طرح کا دھڑ، ہاتھ ، پائوں، منہ اور دیگر اعضاء ہونگے، وہ کس طرح چلے گا پھرے گا، کھائے گا ، سوئے گا وغیرہ۔ یہ سب کچھ اس تخلیق میں شامل ہے۔ اسی طرح اس نے ہر چیز کی ایک خاص مقدار مقرر کر دی۔ کسی کو چھوٹا اور کسی کو بڑا اور کسی کو انسان اور کسی کو حیوان کسی کو پہاڑ اور کسی کو پتھر اور کسی کو مکھی اور کسی کو مچھر غرض ہر ایک کی ایک خاص مقدار مقرر کر دی ہے۔
۲۔البارئ: بلا کسی اصل کے اور بلا کسی خلل کے پیدا کرنے والا۔ اس کا مطلب عدم سے وجود میں لانا اور پیدا کرنا ہے۔یوں تو خالق اور باری مترادف صفات ہیں لیکن جب یہ قرآن میں ایک ساتھ استعمال ہوتی ہیں تو خالق کا مطلب ڈیزائن اور نقشہ بنانا اور باری کا مطلب نقشے کو عملی جامہ پہنانا اور وجود بخشنا ہوتا ہے۔
۳۔المصور: اس کا مطلب طرح طرح کی صورتیں بنانے والا کہ ہر صورت دوسری صورت سے جدا اور ممتاز ہے۔، پھر بنائی ہوئی تخلیق کی نوک پلک سنوارنا، اس میں رنگ بھرنا اور اس کو فنشنگ ٹچ دے کر آخری مراحل سے گذاردینا سب شامل ہیں۔
۴۔البديع: زمین و آسمان کا موجد
۵۔المحيي۔ زندگی دینے والا۔
ب۔ربوبیت کی صفات
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ مخلوقات کو پیدا کرکے ان سے غافل نہیں ہوگئے۔ بلکہ دن رات ان کو ہر قسم کی سہولت فراہم کررہے ہیں ۔ وہ سانس کے لئے آکسیجن، حرارت کے لئے سورج کی روشنی، نشونما کے لئے سازگار ماحول، مادی کی نمو کے لئے غذا اور ذائقے کی تسکین کے لئے انواع و اقسام کے میوے اور پھل بنا کر اپنی ربوبیت و رزاقیت کا اظہار رکرہے ہیں ۔
۱۔الرب۔اس کا مطلب پالنے والا یا پرورش کرنے والا ، مالک، صاحب ، آقا اور پروردگار کے ہیں۔ قرآن میں زیادہ تر یہ آقا اور مالک کی معنوں میں آیا ہے۔
۲۔الرزاق: رزق عطا کرنے والا ۔ رزق کا مفہوم صرف کھانے پینے کی چیزیوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں زندگی کی تمام مادی اور روحانی وسائل جو کسی شخصیت کی حیات کے لئے کافی ہیں وہ اس میں شامل ہیں۔اس میں کھانے پینے کی چیزیں، دھوپ، آکسیجن وغیرہ سب شامل ہیں۔
گروپ نمبر ۵۔ توحید
۱۔الاحد: اس کا مطلب ایک، یکتا، جس کے ایسا کوئی نہ ہو، بے مثال اور لا شریک ہستی کے ہیں۔ چنانچہ اللہ جیسی کوئی ذات نہیں، نہ اس کی کوئی مثال ہے، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ بیوی۔ چونکہ وہ تنہا مالک ہے اور سارا اقتدار اسی کا ہے لہٰذا وہ اقتدار ، تصرف ، اور کائنات کو چلانے میں بھی تنہا ، یکتا اور یگانہ ہے۔ کوئی اس کا شریک یا پارٹنر نہیں جو اسکی ملکیت ، احکامات یا تصرف میں شراکت داری رکھتا ہو۔
۲۔الواحد: تنہا ، یکتا، یگانہ
چوتھا حصہ : صفات سے متعلق غلط تصورات اور انکی تصحیح
۱۔صفات شفقت و محبت سے متعلق غلط تصورات
اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی شفقت اور محبت سے متعلق جو غلط فہمیاں اور غلط تصورات پائے جاتے ہیں ان کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ کچھ لوگ اللہ کی محبت اور شفقت کا غلط مفہوم لیتے ہوئے غلو کا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ خدا جو اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے وہ کس طرح انہیں جہنم میں ڈا ل سکتا ہے۔چنانچہ وہ اللہ کی رحم دلی کا لازمی نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ اللہ اپنے بندوں کو جہنم میں نہیں ڈالیں گے خواہ وہ کتنا ہی بڑا گناہ گار، فاسق و فاجر یا مشرک و کافر کیوں نہ ہو۔
اگر اس غلو کا جائزہ لیا جائے یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک باپ اپنے بچوں کے ساتھ انتہاِئی مہربان اور رحم دل ہے۔لیکن جب ایک بچہ کسی ظلم کامرتکب ہوتا ہے تو باپ اسے تربیت دینے کے لئے اسکی تادیب کرتا اور سختی سے پیش آتا ہے۔ اگر بچہ مسلسل اپنی روش برقرار رکھے تو باپ اسے تنبیہ اور وارننگ سے راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ لیکن جب اس کا ظلم انتہا پر پہنچ کر ناقابل اصلاح ہوجائے تو اب باپ اس ناہنجار فرزند سے قطع تعلق کرلیتا اور موقع ملنے پر اسے سخت سے سخت سزا دیتا ہے تاکہ فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں تمیز ہوسکے۔غور کیجئے کہ اگر باپ اپنی نام نہاد نرم دلی نبھانے میں انصاف کے تقاضے پورا کرنے سے قاصر ہو تو یہ محبت و شفقت نہیں بلکہ ایک کمزوری ہے۔چنانچہ رحم دل ہونا اپنے موقع اور محل کے لحاظ سے ایک موزوں صفت ہے لیکن اگر یہ نرم دلی عدل و انصاف کے تقاضے پورا کرنے اورسرکشی کے استیصال میں آڑے آئے تو یہ ایک عیب ہے اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے۔چنانچہ محبت و شفقت کا مطلب گھوڑے گدھے برابر کردینا اور عدل و انصاف کو پس پشت ڈال دینا ہرگز نہیں ہے۔
۲۔ عفو و درگذر سے متعلق غلط تصورات
ایک غلط تصور اس ضمن میں یہ پایا جاتا ہے کہ اللہ تو بڑے غفور اور رحیم ہیں ۔ اس بنا پر لوگ گناہوں سے معافی مانگنے میں تاخیر اور گناہ پر گناہ کئے جاتے ہیں۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ توبہ اور مغفرت کا ایک قاعدہ اور قانون ہے۔ یہ کوئی مطلق اور عام معافی کا اعلان نہیں کہ جو کچھ بھی کرو سب معاف ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت عدل و انصاف کے تقاضوں ہی کے تحت ہوتی ہے۔
۳۔ ہدایت کے بارے میں غلط فہمیاں
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔ قرآن میں یہ اسلوب کئی جگہوں پر استعال ہوا ہے ۔لیکن اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ یہ ہدایت و گمراہی الل ٹپ نہیں بلکہ ایک ضابطے کے تحت ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ ہدایت کے متلاشی کو راہ دکھائی جاتی ہے اور اس سے منہ موڑنے والے سرکشوں اور فاسقوں پر اس کا دروازہ تدریجاََ بند کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ دلوں پر مہر لگ جاتی ہے ۔
۴۔ قدرت کے بارے میں غلط فہمیاں
ماضی میں اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان بڑی معرکہ آرائی رہی ہے کہ اللہ کی قدرت اور عدل کے درمیان کیا توازن ہے؟۔ اشاعرہ کا کہنا تھا کہ اللہ چونکہ قادر مطلق ہیں چنانچہ وہ اگر چاہیں تو ابو جہل کو جنت میں ڈال سکتے ہیں اور چاہیں تو کسی نیک بندے کو جہنم میں ڈال دیں۔ دوسری جانب معتزلہ کا کہنا تھا کہ اللہ چونکہ عادل ہیں اس لئے وہ ایسا نہیں کرسکتے ۔ اگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو دونوں نقطہ نظر کی پریزینٹیشن درست نہیں اور یہ کامن سینس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر ایک بیٹا اپنے باپ سے کہے " ابو آپ تو بہت طاقتور ہیں تو کیا آپ اس طاقت کے اظہار کے لئے میری ماں کو پنکھے سے لٹکا سکتے ہیں ؟ " اگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو فی الواقع یہ باپ کی طاقت کا امتحان نہیں بلکہ اس کے صحیح الدماغ ہونے کا ٹیسٹ ہے۔ظاہر ہے یہ سوال ایک بچہ تو کر سکتا ہے لیکن ایک باشعور انسان سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ لہٰذا جہاں تک قدرت اور عدل کی فوقیت کا تعلق ہے تو قدرت ہو یا عدل ، دونوں ہی صفات میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کار فرما رہتی ہے۔چنانچہ اس کے بارے میں بحث سے قبل اتنا ضرور سوچ لینا چاہئے کہ ہم کس حکیم اور دانا ہستی کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں؟
۵۔ علم الٰہی سے متعلق غلط تصورات
علم الٰہی سے متعلق کچھ غلط تصورات کی وضاحت ضروری ہے۔کچھ فلسفی جن میں افلاطون شامل ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ جزیات کا علم نہیں رکھتا بلکہ کلیات کا علم رکھتا ہے۔یعنی اللہ کو یہ تو علم ہے کہ کائنات کیا ہے زمین ، سیارے، چاند سورج اور ستارے کیسے ہیں لیکن نعوذباللہ اللہ تعالٰی یہ نہیں جانتے کہ ایک درخت میں کتنے پتے ہیں یا بارش کے قطرے کدھر گریں گے وغیرہ۔ قرآن اس تصور کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے علم کی کاملیت پر دلالت کرتا ہے کہ ایک پتہ کدھر گرے گا، بارش کب ہوگی، ماں کے پیٹ میں کیا ہے وغیرہ ، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کام جزیات کے ساتھ جانتے ہیں۔
علم الٰہی کے بارے میں ایک غلط فہمی اس کا انسانی علم سے موازنہ کرنا ہے۔انسان کے دیکھنے اور سننے کی ایک حد ہے یعنی وہ ایک مخصوص فاصلے تک چیزیں دیکھ سکتا اور ایک حد سے زیادہ فریکوئنسی کی آواز نہیں سن سکتا۔اللہ اس عیب سے پاک ہیں۔ اسی طرح انسان کی یاداشت میں جوں جوں نئی چیزیں آتی ہیں تو پرانی چیزیں محو ہوتی جاتی ہیں۔ اللہ بیک وقت اربوں کھربوں مخلوقات کا علم رکھتے، اسکی جزئیات تک کو جانتے اور اسے دوبارہ پیش کرنے پر قادر ہیں۔
۶۔حکمت الٰہی سے متعلق غلط تصورات
اسی طرح زیادہ تر غلط فہمیاں اللہ کی صفت حکمت نہ سمجھنے کی بنا پر ہوتی ہیں۔ اللہ کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے۔ کچھ حکمتیں تو اللہ اس دنیا میں ظاہر کردیتے ہیں لیکن اکثر حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ چنانچہ جب ایک شخص اس دنیا میں ظلم و ستم کا بازار گرم ہوتا دیکھتا ہے تو وہ اللہ کی صفت عدل پر اعتراض کرتا ہے۔ لیکن اس دنیا میں ظالم کو ایک حد تک مہلت دینا اسی حکمت کے تحت ہے کہ امتحان کی اس دنیا میں ظالم کو ایک حد تک چھوٹ دی جائے۔
اس حکمت پر کچھ اشارات سور ہ کہف میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کے قصے میں دئیے گئے ہیں ۔چنانچہ حکمت اگر سمجھ میں آجائے تو بہتر وگرنہ اس پر اجمالی اطمینان ہی کافی ہے۔
۷۔ خلاقی سے متعلق غلط فہمیاں
اس صفت سے متعلق بالعموم ایک اشکال ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے۔وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ تو بہترین تخلیق کرنے والے ہیں تو پھر معذوروں اور بدصورتوں کی پیدائش میں کیا راز پوشیدہ ہے۔ دیگر صفات کی طرح اس میں بھی ایک حکمت کا پہلو ہے ۔ خوبصورتی ، تن درستی اور اعضاء کا تناسب ایک اضافی اورموازنے والی صفت ہے چنانچہ خوبصورتی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب اس کے مقابلے میں کوئی بدصورت شے ہو یا اعضاء کا تناسب اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب اجزا ءبے ترتیب یا نامکمل حالت میں پائے جاتے ہوں۔ چنانچہ خوبصورتی کے احساس کو نمایاں کرنے کے لئے اللہ نے بدصورتی کو تخلیق کیا ہے ۔ یعنی بے ترتیبی کی تخلیق کوئی عیب نہیں بلکہ یہ حکمت پر مبنی ہے۔
۸۔ربوبیت سے متعلق غلط فہمی
رزق کا مفہوم صرف کھانے پینے کی چیزیوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں زندگی کی تمام مادی اور روحانی وسائل جو کسی شخصیت کی حیات کے لئے کافی ہیں وہ اس میں شامل ہیں۔اس میں کھانے پینے کی چیزیں، دھوپ، آکسیجن وغیرہ سب شامل ہیں۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ رازق ہیں چنانچہ اب انسان کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔رازق کا مطلب ہے عطا کرنے والا۔ چنانچہ اس عطا کرنے کا ایک ضابطہ مقرر کیا ہوا ہے۔ اس ضابطے میں دو چیزوں کی آمیزش ہے۔ پہلی اللہ کی مشیت و حکمت اور دوسرا اسباب کا استعمال۔ اس میں فوقیت تو اللہ کی مشیت اور حکمت ہی کو ہے لیکن اگر کسی روزی کے کمانے کے لئے اسباب کا استعما ل لازم ہے تو یہ شرط بھی پوری ہونی چاہئے۔مثال کے طور پر ایک دو ماہ کا بچہ اپنے لئے غذا کا خود بندوبست نہیں کرسکتا چنانچہ اس کے اسباب ماں اور باپ کی صورت میں اللہ نے خود فراہم کردئیے ہیں یہاں تک کہ ماں غذا کو بچے کے پیٹ تک پہنچاتی ہے۔ دوسری جانب یہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اب اسباب کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے اور اسے غذا کے حصول کے لئے اس تک ہاتھ بڑھانا، اسے چبانا اور حلق تک خود اتارنا ہوتا ہے۔ جب وہ مزید بڑا ہو کر ماں باپ کے معاشی سہارے سے محروم ہوجاتا ہے تو رقم کے بندوبست کے لئے اسے ہی بھاگ دوڑ کرنی ہوتی ہے ۔ اگر وہ گھر پر بیٹھ جائے اور اس دو ماہ کے بچے کی طرح غذا کو منہ تک پہنچانے کی ذمہ داری اللہ کو سونپ دے تو وہ اصل میں اللہ کے رزق دینے کے نظام کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ البتہ وہ معاملات جو اس کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتے اور اسباب کی فراہمی کا خود بندوبست کرتے ہیں۔
اس بحث میں اس سوال کا جواب بھی ہے کہ اگر اللہ رازق ہیں تو پھر لوگ بھوک سے کیوں مر جاتے ہیں؟ بے شک رزق کی فراہمی اللہ کے ذمے ہے لیکن اگر اللہ کی مشیت اور حکمت یہ ہے کہ امیر لوگوں یا قوموں کو آزمائے کہ وہ کس طرح غربت اور افلاس سے دم توڑتے لوگوں کو سے پیش آتے ہیں۔ آیا وہ انہیں مرنے دیتے ہیں یا آگے بڑھ کر انکی بھوک کو مٹانے کے اجتماعی اقدامات کرتے ہیں۔ چنانچہ یہاں اللہ رزق کے وسائل امرا ء کو دے کر انہیں آزماتے ہیں۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ اللہ جس کو چاہتے ہیں بے حساب رزق دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں نپا تلا رزق دیتے ہیں۔ یہاں بیان سے یوں لگتا ہے کہ یہ تقسیم بلا کسی ضابطے اور قانون کے ہے۔ قرآن کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں۔ رزق کی فراہمی کا ایک ضابطہ ہے اور یہ ضابطہ اللہ کی مشیت، حکمت،آزمائش کی اسکیم وغیرہ پر منحصر ہوتا ہے۔
۹۔ توحید کے بارے میں غلط فہمیاں
سب سے زیادہ غلط تصورات اسی صفت کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔ اس صفت کا تقاضا ہے کہ انسان اللہ کو ایک ، یکتا، تنہا جانے اور مانے۔ لیکن انسان کبھی اللہ کے شریک بنا بیٹھا ، کبھی اسکی اولاد بنالی ، کبھی اسے دنیاوی بادشاہوں پر محمول کرکے اس کے مقربین اپنی طرف سے فرض کرلئے تاکہ وہ اللہ کے حضور لوگو ں کی سفارش کرسکیں۔ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ فرض شدہ شریک نمایاں ہوتے چلے گئے اور اللہ کی ذات پس پشت جاتی رہی۔اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے ماننے پر زور نہیں دیا بلکہ اسے تنہا ماننے پر زور دیا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)